top of page
  • Writer's picture24newspk

سب سے پہلا نوبل انعام کس کو ملا تھا اور کب ملا تھا؟جانئیے


24 نیوز پی کے: سب کو معلوم ہے دنیا کا سب سے بڑا انعام نوبل انعام ہے اور فزکس میں سب سے پہلے نوبل انعام پانے والے شخص کا نام وہیلیم روہینجن ہے جنھیں ایک حادثاتی دریافت پر (1901) میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔۔۔

آئیے اب دیکھتے ہیں کہ آخر کیوں انھیں نوبل انعام دیا گیا۔ انھوں نے فزکس میں ایسی کونسی نئی چیز دریافت کی کہ انھیں وہ انعام دیا گیا جو بلیک ہول پر کام کرنے والے بلاشبہ عظیم سائنسدان سٹیفن ہاکنگ کو بھی نہیں دیا گیا۔

وہیلیم کونارڈ روہینجن ستائیس مارچ 1845 کو پیدا ہوئے اور وہ ایک جرمن فزیسٹ اور مکینیکل انجینئر تھے اور یہ وہ شخص تھے جنھوں نے ایکسرے ریڈی ایشن کی دریافت کی۔ باقی کئی دریافتوں کی طرح یہ بھی ایک حادثاتی اور اتفاقیہ دریافت تھی۔ لیکن ایک ایسی عظیم کھوج تھی کہ اس سے آپ ہڈیوں کے کینسر، بند پڑی خون کی نالیاں اور ٹوٹی ہڈیوں تک کا پتا لگا سکتے ہیں۔اب یہ ہوا کیسے

1858 میں ایک تجربہ ہوا جس سے کیتھوڈ ریز ڈسکور ہوئیں۔ اور سائنسدانوں کو ایک نیا شعبہ مل گیا تجربات کہ لیے۔ ان کرنوں تجربات ہوتے گئے ہوتے گئے اور قدرت کےراز کھلتے گئے۔ بالآخر وقت آ گیا نومبر اٹھارہ سو پچانوے (1895) کا جب ایک پچاس سالہ شخص روہینجن وورزبرگ میں موجود اپنی لیبارٹری میں پڑی لینرڈ ٹیوب سے بار بار الیکٹرک کرنٹ گزارتا ہے۔ اس ٹیوب میں انھوں نے ایک کھڑکی رکھی جو کہ ایلی مونیم کی بنی تھی جسے گتے سے کور دیا گیا تا کہ الیکٹرک کرنٹ اسے نقصان نا پہنچا سکے۔ تبھی وہ ایک عجیب و غریب چیز دیکھتے ہیں کہ جیسے ہی ٹیوب سے الیکٹرک کرنٹ گزرتا ہے، ایلمونیم کی پلیٹ پر کارڈ بورڈ کی چھایا بنتی ہے۔ یہ چیز انھیں اور حیرت زدہ کر دیتی ہے۔ وہ اسی تجربے کو کروک ٹیوب پر کرتے ہیں اس پر بھی ایسی ہی چھایا نظر آتی ہے پھر انھوں نے کمرے میں موجود ایک کتاب کو ایلمونیم اور کیتھوڈ رے ٹیوب کے درمیان میں رکھا تو اس کتاب کا عکس بھی ایلی مونیم پر نظر آنا شروع ہو گیا۔

وہ یہ تجربات کرتے گئے لیکن اس کا نام کسی کے آگے نا لیا کیونکہ انھیں ڈر تھا اگر یہ میرا فقط وہم ہوا تو بہت بدنامی ہو جانی۔کوئی چیز تو ایسی نظر آ رہی نہیں تھی کہ جس سے عکس پڑھتا بس اسی لیے؟- نہیں

نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی

نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی

کے مصداق وہ کھوج کرتے رہے ۔



آخر کار انھوں نے یہ تجربہ اپنی بیگم پر بھی کر دیا۔ کیا تو ڈر کر ہی ہو گا لیکن وہ کہتے ہیں نا کچھ بڑا کرنے کے لیے خطرہ تو مول لینا پڑتا بس ان کی بیگم کا ہاتھ جنھوں نے اس وقت انگوٹھی بھی پہن رکھی تھی جب ٹیوب اور ایلومینیئم کی پلیٹ کے بیچ میں لایا گیا تو اس ہاتھ کی ہڈیاں جن کی تصویر نیچے موجود ہے سامنے آ گئی بس ہو گیا معجزہ۔۔۔ ایک شخص جو محض کیتھوڈ رے کی خصوصیات جاننے کے لیے تجربہ کر رہا تھا اس نے ایکس رے کو دریافت کیا۔ ایکس رے کو ایکس رے اس لیے کہا جاتا ہے کہ سائنس میں جب کسی ویری ایبل کی ویلیو نہیں معلوم ہوتی اسے ایکس یا وائے کا نام دیا جاتا ہے بس ایکس رے جن کے بارے میں کوئی کچھ نا جانتا تھا روہینجن نے ان شعاؤں کو ایکس رے کا نام دیا گیا۔

1896 میں اور بھی کئی ماہر طبعیات خاص کر کے جن کو روہینجن نے اپنی بیگم کے ہاتھ کی تصویر بھی بھیجی تھی نے اس چیز کو نوٹس کیا اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے یہ ریڈی ایشنز اتنی شہرت پکڑ گئیں کہ 1897 میں بالکن جنگ کے دوران ڈاکٹروں نے سپاہیوں کو لگی گولیاں اور ان کی ٹوٹی ہڈیاں دیکھنے کے لیے ان کو استعمال کیا۔ اسی حادثاتی دریافت کی بنا پر ہی روہینجن کو 1901 میں نوبل انعام سے نوازا گیا جو کہ طبعیات کا پہلا انعام تھا اور ان کا نام رہتی دنیا تک امر ہو گیا۔



اسی موضوع کو جاری رکھتے یہ بات بھی ضروری ہے کہ رفتہ رفتہ ان ریڈی ایشنز کا استعمال اتنا بے دریغ ہو گیا کہ جوتے کی دکانوں پر بھی ایکسرے مشینیں رکھی جاتیں لیکن پھر لوگوں کو سمجھ آ گئی کہ ریڈی ایشنز ایک مخصوص حد سے زیادہ کوئی بھی ہوں وہ کینسر اور جلد کے دوسرے امراض کا باعث بنتیں ہیں۔ یوں یہ ریڈی ایشنز فقط لیب اور میڈیکل تک محدود ہو گئیں

اس ضمن میں سب سے نئی ٹیکنالوجی کیٹ (CAT) کمپیوٹڈ ایکسیل ٹوموگرافی ہے جو ایکس رے کی کرنیں پیدا کرتی ہے جو جسم میں مختلف زاویوں سے گزرتی ہوئیں ڈیجٹل ڈیٹیکٹرز سے کیچ کی جاتی ہیں۔ جس سے ہمیں مختلف بیماریوں، ان کے علاج اور ان کا علاج کام کیسے کر رہا کہ بارے میں پتا لگتا ہے۔



21 views0 comments
bottom of page