24newspk
سلطان محمد فاتح کی فتح اور آیا صوفیہ
Updated: Jul 12, 2021

السلام علیکم ناظرین گزشتہ چند دنوں سے ترکی اور آیا صوفیا کا سب نے قصہ سنا اور پوری دنیا میں آیا صوفیہ کا نام اس طرح مشہور ہو گیا جیسے کہ اس کے بارے میں پہلے سے کسی کو خبر ہی نہ تھی ایاصوفیہ بنیادی طور پر یہ وہ ایک عیسائیوں کی عبادت گاہ تھی جس میں لوگ عبادت کیا کرتے تھے اور اس کو سلطان محمد فاتح نے جب فتح کیا اس علاقے کو اس کو مسجد میں کنورٹ کرنے کا اعلان کیا ہم یہ جانتے ہیں کہ سلاطین دہلی کی فہرست بہت طویل ہے ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ سلاطین ہند میں کون کون سے لوگ یہاں پر آئے کون کون سے حکمران آئے کون کون سے بادشاہ یہاں پر آئے اور کیسا کیسا ملٹری بلڈ اپ کیا، انہوں نے کون کون سے علاقے کو فتح کیا لیکن ہم سلاطین عرب کے بارے میں نہیں جانتے سلاطین یورپ کے بارے میں نہیں جانتے مسلمان ہونے کی حیثیت اور پاکستانی ہونے کی حیثیت سے ہر نوجوان کو سلاطین یورپ اور سلاطین عرب کا علم ہونا بھی بہت ضروری ہے آج کی گفتگو میں ہم جس شخصیت کا ذکر کریں گے وہ ہے سلطان محمد فاتح۔ سلطان محمد فاتح کون تھے انہوں نے کیسے علاقے کو فتح کیا اور اس کی پہلے سے تاریخ کیا تھی اور ان کی فتوحات کے بعد یہ سلسلہ کہاں پر تھما ہمارے ساتھ رہیے گا ہم جاننا چاہیں گے کہ اس عظیم ہسٹری کو جب لکھا جا رہا تھا کہ سلطان محمد فاتح کا ذکر کیسے کیا گیا
جی ناظرین ، ہم بات کر رہے تھے سلطان محمد فاتح اور قسطنطنیہ جس کو آج استنبول کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ سلطنت عثمانیہ کے بہت بڑے سلطان گزرے ہیں وہ بڑے جنگجو تھے اور یہ مراد ثانی ان کے والد کا نام تھا جو بذات خود ایک بہت بڑے بادشاہ بہت بڑے حکمران اور ایک زبردست ملٹری جنرل بھی تھے۔ مراد ثانی کے ہاں بیٹے کی ولادت یعنی سلطان محمد فاتح ہم جن کو کہتے ہیں ۱۴۲۳ عیسوی میں بعض مورخوں نے چودہ سو بتیس میں ان کی پیدائش لکھا ہے اور ان کا نام رکھا گیا محمد ۔ جب یہ بڑے ہوئے بچپن سے نکلے تو ان کو محمد ثانی کہنا شروع کردیا گیا محمد ثانی نے اپنے والد کی وفات کے بعد سلطنت عثمانیہ کو سنبھالا اور اس کے بعد انہوں نے قسطنطنیہ پر اٹیک کیا۔ قسطنطنیہ کی تاریخ یا موجودہ استنبول اس کی اسلامی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ کیا ہی وہ عظیم شخص ہوگا جو قسطنطنیہ کو فتح کرے گا اور کیا ہی وہ عظیم لوگ ہوں گے جو اس جرنیل کی فوج کا حصہ ہوں گے اس کے بعد صحابہ کرام کے دور سے اس علاقے کو فتح کرنے کے لیے مختلف ادوار میں یلغار کی جاتی رہی جس کی سب سے بڑی نشانی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کی شکل میں دیکھ سکتے ہیں۔
حضرت اویب انصاری میزبانِ رسول ہیں۔ اور انہوں نے باقی اصحابہ سے یہ گزارش کی تھی کہ اگر کسی معرکے میں مجھے شہادت نصیب نہ ہو سکی اور مجھے اگر کوئی اور بیماری لگی چاہے زخمی ہونے کی وجہ سے یا بیماری بھی ہو جائے اس کی وجہ سے اور میری اس طرح اگر وفات ہوتی ہے تم میری قبر اس میداں میں جنگ کے نیچے بنائی جائے اس میدان جنگ کی مٹی میں بنائی جائے جہاں پر اس سال مسلمانوں کا لشکر برسرپیکار ہو گا یہی وجہ ہے کہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کا مزار استنبول میں بنایا گیا اور اس وقت مسلمانوں کی وہاں پر لشکر کشی جاری تھی اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ فرمانا تھا کہ جب میں مسلمانوں کے اس میدان جنگ میں جہاں پر مسلم فوج لڑ رہی ہوگی جہاد کر رہی ہوگی اس مٹی میں دفنا دیا جاؤ ں گا تو مجھے مسلمانوں کے گھوڑوں کی دھمک کی آواس میرے سینے کومیرے کلیجے کو ٹھنڈی کر رہی ہوں گی ان کی وصیت کے مطابق وہاں پر تدفین کیا گیا۔
سلطان محمد فاتح یا محمد ثانی جب 21 برس کے تھے تو انہوں نے قسطنطنیہ پر اٹیک کیا اس کی سب سے بڑی مشکل پیش آئی اس وقت ملٹری نقطہ نظر سے وہ تھی خشکی کے راستے سے بحری بیڑے کو لے کر کے سمندروں میں اتار دینا اور یہ تقریبا دو کلو میٹر یا تین کلو میٹر کا ایسا فاصلہ تھا جس کے اوپر اپنے بحری جہاز کو باندھ کر لانے کی کوشش کی گئی جب سلطان محمد فاتح کو یہ بتایا گیا کہ اتنا بڑا بحری جہاز خشکی کے راستے سے ہم کیسے لے کر جائیں گے تو انہیں یہ کہا گیا کہ اگر اس کے لیے ہمارے پاس گاڑی نہیں ہے تو اس کو گھسیٹ کر لے جایا جاتا ہے لیکن اس کے بغیر ہماری فتح ممکن نہیں ہوگی اور مورخین نے یہ بات لکھی ہے کہ وہ دو تین کلو میٹر کا فاصلہ اس بحری جہاز کو زمین کے اوپر رگڑ کر کنارے پر ساحل سمندر پر لایا گیا اور اسی کے اوپر تیر انداز اور گولہ باری کرنے والی مشین جودھی سلطان محمد فاتح کا جو گراونڈ ویسٹریج ون سرائیکی اور گولہ باری کرنے والی مشینیں ساری کی ساری اس بحری جہاز پر تھیں۔
سلطان محمد فاتح کی اس تاریخی فتح اور اس یلغار کو مختلف مصورین نے اپنے فن پاروں میں بھی نمایاں کیا ہے اور جب بھی کسی مصور سے سلطان محمد فاتح کی اسکیچ کے حوالے سے بات کی جائے گی تو وہ اس بحری جہاز کا ذکر ضرورکرے گا۔ سلطان محمد فاتح کا 21 سال کی عمر میں استنبول پر یلغار کرنا اور اس کو فتح کرنا اسلامی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جاچکا ہے جب یہ فتح حاصل ہوگئی تو اس وقت جو ساتھی کو لیگ جنرل تھے ملٹری کے اور جو بزرگ اس لشکر میں ساتھ تھے ان کے پاس آئے آئے اور انہوں نے آکر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ شاہکار حدیث بادشاہ کو سنائی جس میں نبی پاک نے فرمایا تھا کہ کیا یہ وہ خوب جنرل ہوگا جو قسطنطنیہ کو فتح کرے گا اور کیا ہی وہ عظیم لوگ ہوں گے جو اس کی فوج کا حصہ ہوں گے ہم آپ کو مبارکباد پیش کرتے ہیں سلطان آپ وہی شخصیت ہیں کہ جن کے بارے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمان جاری کیا تھا لیکن ایک برگزیدہ بندے کی سب سے پہلی نشانی جو ہے وہ یہ ہوتی ہے کہ وہ چاہے بادشاہ بن جائیں جنرل بن جائے سلطان بن جائے اس کے اندر پہلا عنصر جو ہوتا ہے برگزیدہ ہونے کا وہ اس کی عاجزی اور انکساری ہوتی ہے اور یہی وجہ تھی کہ سلطان محمد فاتح نے جب یہ حدیث سنی تو وہ رو دیے ہیں اور انہوں نے کہا کہ نہیں یہ حدیث کہاں اور میں کہاں ہاں اگر یہ حدیث اس طرح پیش کی گئی تھی تو میں آج تک اس کا سارا کریڈٹ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کو دیتا ہوں اور یہی وہ عظیم شخصیت ہیں جن کے بارے میں نبی پاک نے فرمان جاری کیا تھا ۔
اس کے بعد وہاں پر ایک بہت بڑا مرکز تھا جو کہ گرجا گھر تھا جس میں یہ بازنطینی ایمپائر جو تھی یا بازنطینی سلطنت جس کو کہتے ہیں یہ مسلمانوں کی جگہ بازنطینیوں کے ساتھ تھی اس بازنطینی سلطنت کا سارا جو مذہبی فیبرک تھا وہ عیسائیت پر تھا جنہوں نے وہاں ایک بہت بڑا گرجاگھر بنایا ہوا تھا سلطان نے اعلان کیا کہ ہم یہاں پر مسجد تعمیر کریں گے جہاں نماز ادا کیا کریں گے لیکن چونکہ بازنطینی سلطنت جو ہے یہ بہت رقبے پر پھیلی ہوئی تھی اور اس کے ساتھ ملحقہ بہت سارے علاقے تھے۔ قسطنطیہ کے مرکز کو فتح کرنے کے بعد سلطان محمد فاتح نے اس کے جو الائیڈ تیری تھی اس کے راستے میں جو باقی علاقے تھے ان کو فتح کرنے کا بھی اعلان کیا اور وہاں پر بھی اپنے لشکروں ہیں ان کی قیمتیں میں فیلڈ میں بھیجنے شروع کر دی تو 1451 میں قسطنطنیہ کو یا چودہ سو باون میں فتح کیا گیا تو اس کے بعد مزید ایک دو سال باقی جو علاقے تھے ان کو فتح کرنے میں لگے اور آخر کار یہ سات سو سال کی مسلسل محنت اور مسلسل جنگی حالات کے بعد مسلمانوں میں قسطنطنیہ کو سلطان محمد فاتح کی قیادت میں اس کو فتح کیا اور اس کے بعد جب بہت بڑے گرجا گھر کو مسجد میں کنورٹ کرنے کا اعلان تھا اس کی باری آئی اس کا نام تھا آیا صوفیا محمد فاتح اس کو مسجد میں کنورٹ کرنا چاہتے تھے لیکن اس خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے سے پہلے وہ اس دار فانی سے کوچ کر گئے اس کے بعد ایاصوفیہ کا کیا بنا اس کے بارے میں نوجوان نسل کو معلوم ہونا ضروری ہے جس کے لیے جدید ترکی کی سیاست بنی اس کے معاملات صاف ہونا بھی بہت ضروری ہے۔مزید جاننے کے لئے اس ویڈیو کو آخر تک دیکھیں۔