24newspk
فاتح کی یلغار (حصہ اول)

سلطان محمد خان 6 اپریل 1453 بمطابق 26 ربیع الاول857 کو اپنی بہادر افواج کے ہمراہ خشکی کی جانب سے قسطنطنیہ کی فصیل کے سامنے نمودار ہوئے۔شہر کے سب دروازے بند تھے اور قسطنطنیہ کا پورا شہر فصیل پر چڑھ کر دور سے دھول اڑاتے ہوئے سلطان کے لشکر کو دیکھ رہا تھا۔قاسم گزشتہ پندرہ روز سے اسی لشکر کے ہمراہ تھا اور وہ اب اپنے عزیز دوست سپہ سالار آغا حسن کی ماتحتی میں اپنے سابقہ عہدے پر برقرار ہو چکا تھا۔قاسم کے ماتحت لڑنے والے مسلمان سپاہیوں کو اپنے سابق سالار کے کے واپس آجانے پر بے پناہ خوشی ہوئی اور وہ تمام قاسم کے ساتھ بغلگیر ہوکر ملے۔اس مرتبہ عثمانی فوج کا ہر سپاہی فتح یا شہادت کے جذبے سے سرشار تھا۔خصوصا آغا حسن کے وجیہہ چہرے پر ولولہ جہاد کی دلفریب لہر دیکھی جاسکتی تھی۔
قاسم جب سلطان محمد فاتح کے پاس پہنچا تو سلطان قاسم کی آمد کا سن کربیتاہانہ اپنے خیمے سے باہر نکل آئے تھے اور انہوں نے قاسم کو یوں واالہانہ انداز میں گلے سے لگایا تھا جیسے مدتوں کے بچھڑےدوست اچانک سر راہ مل جائیں ۔قاسم نے سلطان کو اپنی تمام کارکردگی سنائی اور مقدس بطلیموس کی فراہم کردہ قسطنطنیہ کی چابیاں سلطان کے حوالے کیں ۔بعد ازاںقاسم نے سلطان کو مقدس نقشہ پیش کیاتو سلطان خوشی سے اچھل کھڑے ہوئے اور قاسم کو ایک بار پھر گلے لگا لیا۔قاسم نے سلطان کو نقشے کی تفصیلات سمجھائیں اور چودہ میل لمبی فصیل کے کمزور مقامات کی نشاندہی کی۔اس روز قاسم سلطان کے ہمراہ رات بھر بیٹھا رہا یہاں تک کہ لشکر کے مؤذن نے اللہ اکبر کی صدا بلند کی۔اگلے روز قاسم اپنے اہل خانہ سے ملا،اس کی بیوی شہزادی حمیرا رضا کا عورتوں کی سالار تھی۔قاسم کو حمیرا کے اس اقدام سے بے حد خوشی ہوئی ۔قاسم آہن گر "اربان" سے بھی ملا یہ وہ ہی شخص تھا جسے "ادرنہ" میں سب سے پہلے قاسم کےہی ساتھ واسطہ پڑا تھاگزشتہ پندرہ دنوں سے قاسم کے لشکر کے ہمراہ چل رہا تھا اور آج 6 اپریل 1453کے دن قاسم عثمانی لشکر کے ہمراہ ایک بار پھر قسطنطیہ کے سامنے پہنچ چکا تھا۔
ادھر سلطان کے امیر البحر "بلوط اغلن"کے جنگی جہاز جب آبنائے باسفورس میں داخل ہوئے تو ان کا استقبال کرنے کے لئے پرجوش بوڑھا عباس اپنے جہازوں سمیت موجود تھا۔بلوط اغلن نے آتے ہی "نارمن" کے بحری بیڑے کو دور تک پیچھے دھکیل دیا اور پوری کی پوری آبنائے باسفورس پر مکمل قبضہ کر لیا۔اب شہر کے عقبی سمندر پر بھی عثمانی بحریہ کا قبضہ ہو چکا تھا اور یورپی جہاز آبنائے باسفورس کو خالی کرکے بحر مارمورا کے وسط تک پیچھے ہٹ گئے تھے۔رومیوں کے لئے صرف در دانیال کا راستہ کھلا تھا اور وہ بھی ایسی صورت میں جب عثمانی بحریہ کی کشتیاں در دانیال کے پانی میں گشت پر نہ ہوتیں۔ البتہ گولڈن ہارن میں بھاری اسلحہ برادر مسیحی جہاز ابھی تک موجود تھےاور "گولڈن ہارن "کے دہانے پر لوہے کی بھری بھرکم زنجیر تنی ہوئی تھی۔رومی بحریہ کے جہاز دن بھر "بلوط اغلن" کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے رہتے وہ بحر مارمورا سے کبھی کبھار آبنائے میں داخل ہوجاتے اور عثمانی بحریہ کا اچھا خاصہ نقصان کرکے واپس بھاگ جاتے ۔گولڈن ہارن کےافسر وقتا فوقتا ترکی بحریہ کے ساتھ پنجہ آزمائی کرتے رہتے تھے اور یوں گویہ قسطنطنیہ کے دو اطراف میں ترکوں اور رومیوں کے درمیان باقاعدہ بحری جنگ کا آغاز ہو چکا تھا۔قسطنطنیہ کی تیسری سمت میں گولڈن ہارن واقع تھی جس کا راستہ فی الحال بند تھا۔
شہر کے سامنے پہنچ کر سلطان نے اپنا شاہی خیمہ"سینٹ رومانس "کے دروازے کے عین سامنے نصب کروایا تھا۔سلطان نے لشکر کو پڑاؤ کا حکم دیا اور قسطنطنیہ کے محاصرے کا باقاعدہ آغاز کر دیا۔سلطان نے سپاہوں کو خیمے لگانے کا حکم دے دیا اور خود اپنے سفد گھوڑے پر سوار ہوکر فصیل شہر کے سامنے تمام علاقے کا گشت کرنے لگے۔سلطان کے نامور سپہ سالار ان کے دائیں بائیں گھوڑوں پر سوار تھے اور سلطان محمد خان آل عثمان کے مخصوص جاہ و جلال کے ساتھ محاصرے کے مختلف مقامات کا جائزہ لینے لگے۔سلطان نے جابجا بہادر دستوں کو متعین کیا اور فصیل کی مختلف کمزوریوں کو زہن نشین کر کے اپنی خطرناک توپیں نصب کرنے کا حکم دیا۔سلطان نے بیلداروں کے سردار کو بلواکر ساباط اور سرنگیں بنانے کا حکم دیا۔یہ ساباط دراصل لکڑی کے قدآدم کیبن تھے جن کے نیچے پہیے لگائے گئے تاکہ سپاہی ان کے عقب میں خود کو چھپا کر ان کی چھجوں کو آگے سے آگے دھکیلتے ہوئے شہر کی طرف بڑھ سکیں ۔لکڑی کے ساباط سپاہیوں کو تیرانداز سنگ باری سے محفوظ رکھ سکتے تھے۔سلطانی لشکر خیمہ زن ہوگیا اور 6 اپریل کو صبح سے لے کر شام تک تمام عیسائی شہر فصیل پر کھڑے ہوکر عثمانی لشکر کی کاروائی دیکھتے رہے۔
7 اپریل 1453ء کے روز "سینٹ رومانس" دروازے کے پیچھے " جان جسٹنیانی" اپنے آہن پوش بہادروں سمیت دروازوں سے باہر نکلنے کے لئے تیار کھڑا تھا۔اس کے عقب میں سپہ سالار نوٹاراس اپنے سوار لئے کھڑا تھا۔طلوع آفتاب کے کے کچھ دیر بعد لڑائی کے لئے بے تاب عیسائی سپاہی سینٹ رومانس کا دروازہ کھول کر آندھی اور طوفان کی طرح نکلے اور باہر نکلتے ہی ان کا تربیت یافتہ لشکر خود بخود ایک خاص نظم وضبط میں آگیا۔جنیوی فوج کا سپہ سالار جان جسٹنیانی اپنے سوار دستوں کو لے کر صف آرا ہونے لگا،اسی طرح سپہ سالار نوٹاراس نے اپنی صفیں درست کیں اور عیسائی فوجی ملسمان لشکر پرٹوٹ پڑنے کے لئے بےحد بے تاب نظر آنے لگے۔اگلے ہی لمحے ایک جوشیلا عیسائی میدان میں اترا دونوں مبارزین ایک دوسرے کے سامنے اپنے گھوڑوں پر بیٹھے اترا رہے تھے۔مسلمان سپاہی "عبداللہ" تو گویا اپنے دشمن کا منتظر تھا۔اسے آتے ہی اپنے مخالف کو آڑے ہاتھوں لیا۔لوہے سے لوہا ٹکرانے کی آواز فزا میں گونجی پہلے چھناکے کے ساتھ ہی دونوں لشکروں کے سپاہیو ں نے اپنے اپنے نعرے بلند کئے۔فصیل شہر پر متعین سپاہیون کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں عام شہری بھی جنگ کا نظارا کرنے کے لئے آئے ہوئے تھے۔
دونوں مبازرین کافی دیر تک ایک دوسرے کے ساتھ اٹکھیلیاں کرتے رہے داؤ پر داؤ کھیلتے رہے اور بالآخر عبداللہ ے کھیل ختم کرنے کا فیصلہ کیا ۔انہوں نے یکا یک اپنے حملے تیز کردئیے رومی سپاہی کے لئے عبداللہ کے کاری وار بچانا مشکل ہونے لگے تو بھاگ کھڑا ہوا اس کا گھوڑا اپنے لشکرر کی جانب سرپٹ دوڑ رہا تھا۔پہلے پہل عیسائیوں کے قدم اکھڑے لیکن پھر اچانک بہادر جسٹینانی نے خود سب سے آگے بڑھ کر اسلامی لشکر کے قلب پر ایک خطرناک حملہ کردیا۔ وہ ینی چری کے بہادروں کو درہم برہم کرتا ہوا عثمانی پرچم کی جانب بڑھنے لگا۔جسٹینانی کی تلوار بجلی کی طرح لپک رہی تھی اور اس کا ایک ایک وار عثمانی سپاہیوں کے لئے جراٗت وشجاعت کی علامت بنتا جا رہا تھا۔سلطان خود ایک ٹیلے پر کھڑے جسٹینانی کی شجاعت ملاحظ کر رہے تھے۔سلطان کے چہرے پر بے اختیارجسٹینانی کے لئے داد و تحسین کے جذباتابھر آئے۔قلب کو کمزور ہوتے ہوئے دیکھا تو سپہ سالار آغا حسن نے اپنے بکھرتے ہوئے ساتھیوں کو مجتمع کیا اور جسٹینانی کے سامنے جم گیا۔دونون لشکر دو گھنٹے تک آپس میں گتھم گتھا رہے اور پھر عیسائی فوجی پہلے سے طئے شدہ منصوبے کے تحت پیچھے کی طرف سمٹنے لگے۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے میدان کا رزار عیسائیون سے خالی ہوگیا۔شہر کے دروازے اپنے سپاہیوں کے لئے کھول دیے گئے اور شہرویوں نے اپنے بہادروں کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے۔تمام عیسائی فوجی قسطنطنیہ میں داخل ہوگئے تو سینٹ رومانس کا دروازہ بند کر دیا گیا اور رومی محصور ہوکر ترکوں کو ان کے حملوں کا ترکی بہ ترکی جواب دینے لگے۔قیصر قسطعطین خود فصیل شہر کے ایک بڑے برج پر موجود تھا۔فصیل شہر کے آگے چوڑی خندق کھدی تھی جس میں پانی چھوڑ کر اسے بھر دیا گیا تھا۔
مسلمان سپاہیوں نے دن بھر لڑائی میں فصیل شہر کے نزدیک پہچنے کی جتنی بھی کوشش کی تھیں وہ تمام ناکام رہی تھی۔چناچہ سلطان محمد خان نے اپنے سالاروں کی مشاورت طلب کی اور فصیل شہر کی خندق کو پاٹنے کے مشورے مانگے۔اگلے روز مسلمانوں نے علی الصبح خندق کو جگہ جگہ سے ملبے کےذریعےبھرنا شروع کردیا۔یہ شہر سے بیرونی خندق تھی اور زیادہ گہری نہ تھی۔دوپہر تک بڑی مشکل کے ساتھ خندق کوکئی جگہ سے پاٹ کر راستےبنائے گئےاور اس طرح عثمانی فوج فصیل شہر کے عین نیچے پہنچ گئی۔لیکن فصیل کے اوپر ان کا کوئی بس نہ چل سکا۔اوپر سے عیسائیوں نے روغن نقط جلا جلا کر ان پر پھینکنا شروع کر دیا۔جلتی ہوئی تیل کی ہانڈیاں ترکوں کی ڈھالوں سے ٹکرا کر ٹوٹتیں تو خاصا جانی نقصان کرتیں۔مجبورا عثمانی فوج کو فصیل کے نیچے سے پسپا ہونا پڑا اور اس طرح یہ دن بھی بے نیل دمرام گزرگیا۔اگلے روز بھی جوش وجذبے سے لبریز عیسائیوں نے ترکوں کی ایک نہ چلنےدی۔اب سلطان نے ایک اور ترک سوچی۔اس نےلکڑی کے مضبوط تختے جڑوا کر اونچے اونچے چوبی مینار بنوائے جو فصیل شہر کے برابر بلند تھے۔لکڑی کےان مینارون کے نیچے پہئے لگائے گئے جس کی بدولت انہیں آسانی سے حرکت دی جاسکتی تھی۔ان چوبی میناروں کے اوپری سرے کے ساتھ لکڑی کی لمبی لمبی سیڑھیاں باندھی گئیں اور پھر سلطان نے اپنے پہادر سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہان میناروں کو خندق کے کنارے لے جاکر اور ان سیڑھیوں کو اوپر اٹھا کر ان کا دوسراسرا قلعے کی دیوار پر رکھ دیں اس طرح خندق کے اوپر ایک پل سا بندھ جانے کی توقع تھی۔ان چوبی میناروں کا سارا کام سپہ سالار آغا حسن نے اپنے ہاتھ لیا اور خود سب سے پہلے اپنے مینار کو خندق کے کنارے لے جاکر اس کی سیڑھی کو قلعے کی دیوار پر رکھ دیا۔محصورین نے نہایت مستعدی اور چاہکدستی کے ساتھا میناروں پر رال کے جلتے ہوئے گولے پھینکنے شروع کر دئیے۔لکڑی کی سیڑھیوں نے آگ پکڑ لی اور سلطانی فوج کے مینار جلنے لگے۔سلطان کے سپاہی بڑی مشکل سے اچھا خاصا نقصان کروا نے کے بعد واپس لوٹ آئے اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
آج جنگ کو باقاعدہ شروع ہوئے ساتواں دن تھا۔قاسم بن ہشام پچھلے چند دنوں سے سلطانی لشکر میں دکھائی ہیں دے رہا تھا۔سلطان محمد فاتح جب اپنے خیمے میں میں لوٹے تو قاسم بن ہشام ان کے منتظر تھے۔قاسم بن ہشام نے سلطان محمد خان کو خبر سنا کر مسرور کر دیا ،قاسم نے سلطان کو بتایا کہ سلطان معظم مجھے مصدقہ ذرائع سے یہ خبر ملی ہے کہ آج سے صرف دو روز بعد یعنی 15 اپریل کو جنیوا کے نو بڑے جہاز غلہ اور گولہ بارود لے کر قسطنطنیہ پہنچے ولے ہیں ۔وہ آبنائے باسفورس کو لڑتے بھڑتے عبور کرتے ہوئے گولڈن ہارن کی بندرگاہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں ۔ سلطان نے اپنے ماہر جاسوس قاسم بن ہشام کی اطلاع سنی تو خوشی سے پھولےنہ سمایا۔سلطان نے امیر البحر کو فوری طور پر پیغام بھجوایا کہ وہ ان جہازوں کو صحیح سلامت گرفتار کرنے کی کوشش کرے اور پھر 15 اپریل کو قاسم بن ہشام کی خبر سچ نکلی۔جنیوا کے چار غلے اور گولہ بارودسے لدے جہاز اچانک آبنائے باسفورس کے دہانے پر نمودار ہوئے یہ جہاز عثمانی بحریہ کے جہازوں کی نسبت زیادہ بڑے اور مضبوط تھے۔ترکی امیر البحر "بلوط اغلن " نے ان جہازوں کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن جنیوی ملاح جذبہ شہادت سے سرشار تھے وہ ترکی جہازوں کی صفون کو چیرتے پھاڑتے ہوئے صاف بچ کر نکل گئے اور گولڈن ہارن میں داخل ہوکر شہر والوں کو یہ گران قدر امداد پہنچانےمیں کامیاب ہوگئے۔
فاتح کی یلغار (حصہ دوئم)