24newspk
فاتح کی یلغار( حصہ دوئم)

سلطان کو اپنے امیر البحر کے ناکام ہونے کی اطلاع ملی تو سلطان غصے کی حالت میں اٹھے اور اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر خود سمندر کے کنارے جا پہنچے۔جنیوی جہازوں کے کامیابی سےہمکنار ہونے کی خبر نے قسطنطنیہ کے شہریوں میں ایک نئی روح پھونک دی ۔عوام تک اڑتی خبر یہ بھی جا پہنچی کہ ابھی جنیوی بیڑے کے مزید پانچ جہاز بھی بحرمارمورا میں موجود ہیں جو کچھ دیر بعد آبنائے باسفورس میں داخل ہونے والے ہیں ۔لوگ جو ق در جوق عقبی فصیل کی جانب دوڑے اور آن کی آن میں قسطنطنیہ کے ہزاروں شہری ایک جم غفیر کی شکل میں فصیل شہر پر نظر آنے لگے۔ادھر عثمانی بری فوج کے ہزاروں سپاہی اس دلچسپ بحری جنگ کا ولولہ انگیز منظر دیکھنے کے لئے جمع ہوئے تھے۔ ہزاروں نگاہیں سمندر کی لہروں پر مرکوز تھیں لوگوں نے دیکھا کہ جب جنیوی جہاز سمندر میں داخل ہوئے تو عثمانی بحریہ نے بڑے جوش وخرش کے ان جہازوں پر حملہ کرکے ان کی لمبی قطار کو توڑ دیا اور وہ ایک ہی جگہ آگے پیچھے اور پہلو بہ پہلو اکٹھے ہو گئے۔عثمانی جہازوں نے چاروں طرف سے جنیوی بحریہ کے ان پانچوں جہازوں کو گھیر لیااور ان پر آتش و آہن برسانے لگے۔عچمانی جہاز جب پوری طرح مسیحی جہازوں پر غالب آگئے تو بلوط اغلن نے اپنے جہازوں کو مسیحی جہازوں کے ساتھ لگادیا۔اسلامی بحریہ کے مجاہدوں کی یہ خواہش تھی کہ وہ کسی طرح مسیحی جہازون پر سوار ہو جائیں اور ان کے ملاحوں کو قتل کر کے ان کو گرفتار کرلیں لیکن جنیوی جہاز اس قدر بڑے اور بلندتھے کہ عثمانی سپاہی اپنے چھوٹے اور پست جہازوں سے ان پر کسی طرح نہ چڑھ سکے۔شروع شروع میں جب عثمانی جہازوں نے عیسائیوں کو گھیرلیا تو دیکھنے والی نگاہوں کو یقین ہو گیا تھا کہ یہ پانچوں جہاز ضرور گرفتار ہوجائیں گے لیکن پھر اچانک فصیل شہر کی جانب سے اس وقت فلک شگاف شور بلند ہوا جب محصور عیسائی جہاز ترکوں کا محاصرہ توڑ کر بڑی تیزی سے "گولڈن ہارن" کے دروازے پر آپہنچے۔محصورین نے فوراً زنجیر نیچے کر دی اور جنیوی جہاز گولڈن ہارن میں داخل ہوگئے۔سلطان محمد خان نے اپنی بحری فوج کی اس ناکامی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس کو سخت ملال ہوا۔عیسائی جہاز ہاتھ سے نکلنے لگے تو سلطان سے ضبط نہ ہو سکا اور انہوں نے بے اختیار ہو کر اپنا گھوڑا پانی میں ڈال دیا۔
سلطان نے غصے کے عالم میں امیر البحر کو بلوایا اور غم و غصے سے بے قابو ہوکر امیر البحر پر ہاتھ اٹھا دیا لیکن امیر البحر کی اس میں کوئی خطا نہیں تھی۔ اس نے تو اپنے چھوٹے جہازوں کے ذریعے عیسائیوں کے دیوہیکل جہازوں کو محصور کر لیاتھا۔ ملسمانوں کے لئے ان جہازون پر سوار ہونا ناممکن تھا البتہ سلطان کی تنبیہ سے امیر البحر مستعدد ہو گیا اور اس کے بعد کسی اور جہاز کو یہ جراٗت نہ ہوئی کہ وہ در دانیال کو عبور کرکے بحر مارمورا میں داخل ہو سکے۔ان پانچ جہازوں میں کو فوج سوار ہو کر آئی تھی یہ گویا قسطنطنیہ کے لئے آخری بیرونی امداد تھی۔سلطان نے محاصرہ کے کاممیں انتہائی درجہ کی مستعددی دکھائی بار بار نقصان اٹھانا پڑا بار بار حملے ناکام اور بے نتیجہثابت ہوئے۔محصورین کی ہمتیں اپنی کامیابیوں کو دیکھ دیکھ کر اور بھی زیادہ بڑھتی رہیں ۔شہر کے اندر سامان رسد کی مطلق کمی نہ تھی۔ وہ برسون محصور رہ کر مدافعت پر ثابت قم رہنے کا ارادہکر چکے تھے۔ ان کو یہ بھی توقع تھی کہ ہنگری کا بادشاہ"ہونیاڈے" اپنے عہد نامہ صلح کو توڑ کر ضرور شمال کی جانب سے حملہ آور ہوگا اور قسطنطنیہ کا محاصرہ اٹھ جائے گا ۔ان حالات کو دیکھتے ہوئے سلطان محمد خان کی جگہ کوئی دوسرا شخص ہوتا تو یقینا محاصرہ اٹھا کر چل دیتا اور اس کام کو کسی دوسرے وقت پر ٹال دیتا مگر سلطان اپنے ارادے کا پکا اور ہمت کا دھنی تھا۔ان کے عزم واستقلال میں کوئی کمی نہ آئی اور ان کے ارادے ہر ناکامی کو دیکھ کر اور زیادہ مضبوط ہوتے گئے۔
سلطان محمد خان جب "ادرنہ" سے چلا تھا تو اس نے اپنے ہمراہ علماء ،فضلاء،عابدوں اور زاہدوں کی ایک جماعت بھی رکھی تھی،ان برگزیدہ لوگوں کی محبت سے مستفیض ہونے کا خیال ان کو شروع سے ہی تھا۔درویش صفت سلطان مراد خان ثانی نے اپنی زندگی کے آخری چھ سالون میں سلطان محمد خان کو "ایدین" کے علماءصوفیاء کی محفل میں بھیج دیا تھا،انہی نیک لوگو نسے محبت سے ان کے ارادوں میں استقلال اور حصولوں میں بلندی پیدا ہوئی تھی ۔دوران محاصرہ بھی وہ ان لوگوں سے مشورےکرتے رہے۔اپنی پہلی بحری شکست کے بعد محاصرہ میں مزید سختی پیدا کرنے کے لئے ایک روز سلطان محمد خان کو ایک اسی تاریخی تدبیر سوجھی جس نے سلطان محمد خان ثانی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے" سلطان محمد فاتح"بنادیا۔ سلطان کو اندازہ ہو چکا تھاکہ آبنائے باسفورس کے اس حصہ میں جہاں پانی زیادہ گہرا تھا ترکی بیڑا عیسائیوں کے طاقتور جہازون کے مقابلے میں مشکل سے کامیاب ہو سکتا ہے۔لہٰذا اس نے فیصلہ کیا کہ کشتیوں کی ایک بڑی تعداد اور بہت سے بحری جہاز جو عیسائی بحریہ سے نسبتا چھوٹے تھے،بندرگاہ کے بالائی حصے میں منتقل کردئیے جائیں جہاں پانی تنگ اور چھلچھلا تھا۔بندرگاہ کا بالائی حصہ گولڈن ہارن پر مشتمل تھا اور گولڈن ہارن پر کوئی زد نہ پڑ سکتی تھی۔محاصرین تمام ہمت خشکی کی جانب صرف ہو رہی تھی۔خاص کر سینٹ رومانس والے دروازے کی جانب آلات قلعہ کشائی زیادہ کام میں لائے جا رہے تھے۔لہٰذا اہل قسطنطنیہ بھی باقی اطراف سے بے فکر ہو کر اس جانب اپنی پوری قوت مدافعت صرف کر رہے تھے۔
سلطان محمد خان ایک ناممکن کام کوممکن بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔سلطان نے یہ کیا کہ آبنائے باسفورس کے گہرے پانی میں گشت کرنے والے اپنے جہازوں اور کشتیوں کو گولڈن ہارن میں داخل رنے کے لئے جہازوں کو پانی کے بجائے خشکی پر چلانے کی عجیب و غریب تجویز پیش کی۔سطان کا فیصلہ دنیا کی تاریخ میں ایک منفرد اور محیرالعقل یادگارنبنے والا تھا۔ان کا فیصلہ یہ تھا کہ جہازوں کو گولڈن ہارن میں پہنچانے کے لئے انہیں دس میل تک خشکی پر چلا کر لے جائے گا اس کے لئے باسفورس کے مغربی ساحل سے جہاز خشکی پر چڑھا کر انہیں گولڈن ہارن میں ڈال دیا جائے گا۔خشکی کا یہ درمیانی علاقہ تقریبا دس میل لمبا اور سخت ناہموار اور پہاڑی اتار چڑھاؤ سے بھرپور تھا۔سلطان نے ماہ جمادی الاول کی چودہ تاریخ کو جب چاند کی چاندنی ساری رات پورے علاقے کو روشن رکھ سکتی تھی،باسفورس سے لے کر بندرگاہ گولڈن ہارن تک برابر لکڑی کے تختے بجھوادیے،یہ سلطان کی اولو العزمی کا ایک محیر العقل عجوبہ تھا۔سلطان نے یہ کام ایک رات میں مکمل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔انہون نے دس میل کے راستے پر تختے بچھوا کر چربی ڈلوادی اور چکناہٹ سے لکڑی کے وہ تمام تختے ایک خشک سمندر بن گئے۔فصیل شہر سے ادن بھر لوگ سلطانی سپاہیوں کو تختے بچھاتے اور چربی ملتے دیکھتے رہے لیکن وہ حیران تھے کہ آخر مسلمان کیا کر رہے ہیں ؟ رات ہوتے ہی سلطانی سپاہیوں نے اپنے بہترین 80 جہازوں کو کھینچ کر لکڑی کے تختوں پر چڑھا لیا۔ان 80 جہازوں کی ٹرین جب خشکی پر چڑھ آئی تو ان میں باقاعدہ ملاحوں اور بحری سپاہیوں کو سوار کیا گیا اور پھر ہزارہا آدمیوں نے دونوں طرف سے ان جہازوں کو دھکیلنا شروع کر دیا۔اس مقصد کے لئے ہوا کے جھونکوں نے بھی بھرپور تعاون کیا۔چناچہ سلطان نے اپنے جہازوں کے بادبان کھول دیے،جہازوں کی اس ٹرین کو کھینچنے کے لئے انسانوں کے علاوہ بیلوں نے بھی اپنا پورا زور لگایا ۔راستہ طویل اور دشوار گزار تھا۔چاند کی چاندنی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی اور چاندنی رات میں ہزاروں آدمیوں کا شور وغل ،خوشی کے نعرے اور فوجی گیت فصیل شہر پر موجود عیسائی سنتے رہے۔اور یہ سوچ سوچ کر حیران ہوتے ہے کہ آخر آج مسلمان کیا کر رہے ہیں ۔
فاتح کی یلغار (حصہ سوئم)